Sitting on 3rd June 2024

Print

List of Business

Revised

PROVINCIAL ASSEMBLY OF THE PUNJAB

LIST OF BUSINESS

FOR

THE SITTING OF THE ASSEMBLY TO BE HELD ON
MONDAY, 3rd JUNE 2024 AT 2:00 P.M.

Tilawat and Naat

QUESTIONS

relating to

(1) AGRICULTURE; AND (2) SCHOOL EDUCATION DEPARTMENTS

to be asked and answers given

CALL ATTENTION NOTICES

Call Attention Notices, entered in the separate list,

to be asked and oral answers given

GOVERNMENT BUSINESS

GENERAL DISCUSSION

 

 

 

1.            GENERAL DISCUSSION ON LAW AND ORDER SITUATION IN THE PROVINCE

A MINISTER to move for General Discussion on Law and Order Situation in the Province.

  1. GENERAL DISCUSSION ON PROCUREMENT OF SUGARCANE

A MINISTER to move for General Discussion on Procurement of Sugarcane.

________

 

 

 

Lahore:                                                                              Ch Amer Habib

 

02 June 2024                                                                  Secretary General

 

Summary of Proceedings

Not Available

Resolutions Passed

قرارداد نمبر: 9

 محرک کا نام: چودھری افتخار حسین چھچر  (PP-187)

 

اس ایوان کی رائے ہے کہ پاکستان کا آئین ایک انتہائی مقدس دستاویز ہے جو 1973 میں پاکستان کی پارلیمان نے متفقہ طور پر منظور کیا تھا۔ کسی بھی ریاست کی مضبوطی کا انحصار اُس کے اداروں کی مضبوطی پر ہوتاہے۔ ریاستی ادارے جتنے مضبوط‘  فعال اور قابل اعتماد ہوں گے‘ ریاست بھی اتنی ہی طاقتور اور باوقار ہو گی۔ پاکستانی دستور tracheotomy of power یعنی اختیارات کی ثلاثی تقسیم کی ضمانت دیتا ہے۔ اس کے مطابق ریاست کے تین اہم ستون ہیں۔ پہلا ستون مقننہ ہے جس کا کام قانون سازی ہے‘ دوسرا ستون انتظامیہ ہے جس کا کام انتظامی امور کو مروجہ قوانین کے مطابق چلانا ہے اور تیسرے ستون عدلیہ کا کام آئین اور قانون کے مطابق مروجہ قوانین کی تشریح کرنا اور عوام کو انصاف کی فراہمی ہے۔   دستور پاکستان اور مروجہ قوانین کے مطابق ریاستی امور چلانے اور مثالی فلاحی ریاست کے قیام اور استحکام کی خاطر اختیارات کی علیحدگی کے تصور کا احترام ہر ریاستی ادارے کا اولین فرض اور ذمہ داری ہے۔ متفقہ طور پر منظور شدہ دستور پاکستان 1973ء  کے مطابق صرف اور صرف مقننہ کا فرض اور ذمہ داری ہے کہ ریاستی امور کو بہتر انداز میں چلانے اور عوام کی فلاح و بہبود اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لئے بہتر سے بہتر قانون سازی کرے۔ اسی طرح بہترین اور مثالی ریاست کے قیام و استحکام کے لئے آزاد عدلیہ پر ہم سب کا اتفاق ہے اور یہ دستور پاکستان 1973 کی منشا بھی ہے۔

قیام پاکستان کو 77 برس اور دستور  پاکستان کو بنے 51 برس بیت چکے مگر وطن عزیز میں آج بھی اس پر عملدرآمد نہ ہو سکا ۔ ہر تھوڑے عرصے بعد کسی نہ کسی تجربے یا خواہش کے پیش نظر کوئی ایک ادارہ اپنے اختیار سے تجاوز کرتے ہوئے دوسرے کے امور میں مداخلت شروع کردیتا ہے۔ پاکستانی تاریخ کا ایک افسوسناک پہلو یہ ہے کہ گزشتہ غلطیوں سے سبق سیکھنے کی بجائے محض کرداروں کی تبدیلی کے ساتھ پچھلی غلطیاں بار بار دہرائی جاتی ہیں۔ 1973 کا آئین اس لحاظ سے گزشتہ آئین سازی سے منفرد تھا کہ اس میں عدلیہ کو پہلی بار انتظامیہ سے علیحدہ کرکے خودمختار بنایا گیا  ہے۔ تاہم بدقسمی کی بات ہے کہ اس خودمختاری کا استعمال اس طرح کیا گیا کہ  جوڈیشل ایکٹوزم کی آڑ میں انتظامیہ اور مقننہ کی حدود میں بے جا مداخلت کی گئی اور اس طرح  Tracheotomy of Power کے اصول کی صریحاًخلاف ورزی کی گئی جو آج بھی جاری ہے۔

جوڈیشل ایکٹوزم کی آڑ میں بار بار انتظامیہ اور مقننہ کی آئینی حدود میں عدلیہ کی جانب سے مداخلت کی ایک تاریخ موجود ہے۔  1973ء کے آئین کے آرٹیکل 184 کا بے دریغ استعمال ہوا اور ان گنت سوموٹو نوٹسز لیے گئے ۔

عدلیہ کی جانب سے انتظامیہ اور مقننہ کی حدود میں مداخلت کا اعتراف خود عدلیہ کے معزز جج صاحبان نے اپنے فیصلوں میں کیا۔ 17 مئی 2022 کے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے فیصلے میں دو معزز جسٹس صاحبان کو اپنے اختلافی نوٹ میں لکھنا پڑا کہ

“Article 63-A of the Constitution of the Islamic Republic of Pakistan is a complete code in itself any further interpretation of Article 63-A of the Constitution, in our view, would amount to rewriting or reading into the Constitution….”

اس طرح کی بے شمار دیگر مثالیں بھی موجود ہیں۔

صوبائی اسمبلی پنجاب کا یہ ایوان مطالبہ کرتا ہے کہ دستور پاکستان اور tracheotomy of power کے بنیادی اصولوں پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جائے نیز مقننہ اور انتظامیہ کو اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لئے دستور اور قانون کے مطابق مکمل آزادی ہونی چاہئے اور آئے روز ہونے والی بے جا مداخلت کو فوری طور پر ختم کیا جائے۔

----------------

قرارداد نمبر: 10

 

محرک کا نام: جناب محمد شعیب صدیقی  (PP-149)

 

دُنیا کے کسی بھی مہذب اور مثالی معاشرے میں 9 مئی جیسے افسوس ناک اور قابل گرفت واقعات کی کوئی گنجائش نہ ہے۔ اگر ان شرپسند اور ملک دشمن عناصر کے خلاف قانون کے مطابق منظم انداز سے، مکمل تیاری کیساتھ محاسبہ نہ کیا گیا تو ہمارے ملک پاکستان اور قوم کومستقبل قریب میں نا قابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ پنجاب اسمبلی کا یہ ایوان پاکستان کی عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں سے پُززور مطالبہ کرتا ہے کہ 9 مئی کے افسوس ناک واقعات میں ملوث تمام شر پسند اور ملک دشمن عناصر کو آئین پاکستان اور مروجہ قوانین پر مکمل عمل کرتے ہوئے کیفرکردار تک پہنچایا جائے تا کہ آئندہ کوئی بھی ایسا شرپسند ملک دشمن گروہ قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کی جرات نہ کر سکے۔

-----------------------

قرارداد نمبر: 11

 محرک کا نام: جناب احمد اقبال چودھری  (PP-54)

 

صوبائی اسمبلی پنجاب کا یہ ایوان پلاسٹک کے شاپنگ بیگز کےاستعمال کو مضر صحت اور ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کا باعث سمجھتا ہے۔ صوبائی اسمبلی پنجاب کا یہ ایوان یہ بھی سمجھتا ہے کہ قوانین اور قواعد موجود ہیں لیکن پلاسٹک بیگز کے زیادہ استعمال پر قابو پانے میں دشواری کا سامنا ہے۔لیکن اب حکومتِ پنجاب نےپلاسٹک بیگز کےاستعمال پر مکمل Ban Impose کر دیا ہے۔

لہذا صوبائی اسمبلی پنجاب کا یہ ایوان حکومتِ پنجاب کے  اس امر پر خراجِ تحسین  پیش کرتا ہےاور اس بات کی بھی اُمید کرتا ہے کہ اس پابندی پر مکمل عمل درآمدبھی کروایا جا ئے گا۔